ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپورٹس / ’سیکولرکجریوال‘سرکارکامتعصبانہ رویہ، حکیم اجمل خاں کی زندہ یادگار طبیہ کالج خطرے میں ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے فروغِ طب یونانی‘ کی ہنگامی میٹنگ 16 جولائی 2017 کو

’سیکولرکجریوال‘سرکارکامتعصبانہ رویہ، حکیم اجمل خاں کی زندہ یادگار طبیہ کالج خطرے میں ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے فروغِ طب یونانی‘ کی ہنگامی میٹنگ 16 جولائی 2017 کو

Thu, 13 Jul 2017 22:16:34  SO Admin   S.O. News Service

نئی دہلی13جولائی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)آل انڈیایونانی طبّی کانگریس کے زیراہتمام ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے فروغِ طب یونانی‘ کی ایک ہنگامی میٹنگ ممتازمجاہدِآزادی مسیح الملک حکیم اجمل خاں کی زندہ یادگار آیوروید اینڈ یونانی طبیہ کالج کے وجود کو لے کر بلائی گئی ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدرڈاکٹرمحمدشمعون(سابق جوائنٹ ایڈوائزر یونانی، حکومت ہند)کے مطابق مذکورہ ایکشن کمیٹی میں شامل آل انڈیایونانی طبّی کانفرنس، گلوبل یونانی میڈیسن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن، حکیم اجمل خاں یوتھ بریگیڈ، مرکزی یونانی طبّی آرگنائزیشن،حکیم اجمل خاں میموریل ٹرسٹ،نیشنل یونانی میڈیکل سائنسز ڈیولپمنٹ کونسل، انجمن فروغ طب یونانی دہلی وغیرہ سے صلاح ومشورہ کے بعدایک ہنگامی میٹنگ نیوسیلم پور، دہلی میں 16 جولائی 2017 (بروز اتوار) کو دوپہر ایک بجے میٹنگ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

واضح ہو کہ آیوروید اینڈ یونانی طبیہ کالج، قرول باغ میں یونانی اساتذہ کی قلت کے سبب سی سی آئی ایم، حکومت ہند نے بی یو ایم ایس 2017-18 کے داخلہ کی منظوری کے لیے وارننگ جاری کی تھی جس کے بعد حکومت دہلی نے 14 اساتذہ کے تقرر کی کارروائی شروع کی تھی مگر افسوس کہ گزشتہ دنوں حکومت دہلی نے اساتذہ کے تقرر کی فائل کو رد کردیا ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں بی یو ایم ایس میں داخلہ ممکن نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر محمد شمعون نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ جس طبیہ کالج کو حکیم اجمل خاں نے قائم کیا تھا اور ہندو مسلم ایکتا کو ملحوظ رکھتے ہوئے آیوروید اور یونانی طبیہ کالج ایک چھت کے نیچے ترقی پارہے تھے، آج اسی تاریخی طبیہ کالج میں آیوروید کے تو 42 اساتذہ موجود ہیں لیکن یونانی کے محض6 اساتذہ ہیں۔

ڈاکٹر محمد شمعون نے یہ بھی بتایا کہ جب سے دہلی حکومت نے آیورویدک سنستھان ڈابر کھیڑا میں قائم کیا ہے اس وقت سے حکومت دہلی کی ترجیحات سے طبیہ کالج محروم ہوگیا ہے اور اس پر غاصبانہ قبضہ بھی ہوچکا ہے، جو کسی گہری سازش کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ کالج 1916 میں قائم ہوا تھا۔ اس کی صدسالہ تقریبات کے لیے سابق لیفٹیننٹ گورنر جناب نجیب جنگ نے پانچ کروڑ روپے مختص کیے تھے مگر ابھی تک اس کالج کی صد سالہ تقریبات کا اہتمام نہیں ہوسکا ہے اور یہ سب حکومت دہلی کے متعصبانہ رویہ کا ہی نتیجہ ہے۔ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے یہ ہنگامی میٹنگ بلائی جارہی ہے۔ 


Share: